
بسم اللہ الرحمٰنِ الرحیم
انسان
کو اس کی ضرورتوں نے اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ وہ تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا بلکہ
مل جل کر رہنے پر مجبور ہے۔ اسی لئے ارسطو نے اسے سماجی حیوان قرار دیا تھا۔ باہم
مل جل کر رہتے ہوئے وہ ایک دوسرے سے اشیائے ضرورت کی خریدوفروخت کرتا ہے تو اس کے
نتیجے کے طور پر تجارت کا عمل ظہور پزیر ہوتا ہے۔ ذرائع رسل و رسائل کی ترقی اور
انسانوں میں باہمی رابطے کی برقی مستعدی نے اسے مزید مہمیز کیا۔ چھوٹے کاروبار سے
کارخانے بلکہ کارخانوں کے گروہ (Group of Industries) معرض وجو د میں آئے۔ ملکی
تو کیا بین الاقوامی سطح پر رجسٹرڈ کمپنیاں بنیں اور کاروبار نے کئی نئے رنگ و روپ
اختیار کئے اور اس قدر پیچیدہ ہو گیا کہ اب کاروبار کے گُر سکھانے والے ادارے بن
چکے ہیں جو اب بھاری بھر کم فیسوں کے عوض بہتر کاروبار کی تعلیم دیتے ہیں۔
عہد
جدید میں کاروبار محض بنیادی ضرورتوں کے لئے خرید و فروخت کی حد تک محدود نہیں رہا
بلکہ وہ اس سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ کاروبار اب زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا
ذریعہ ہے۔ اب انسانی زندگی کی شبانہ روز تگ و دو کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ
منافع کا حصول ہے اور کامیاب انسان وہی شمار ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ منافع بنا
رہا ہو۔ زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کی کوشش میں انسان نے رنگ برنگے جال پھیلا
رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ انسانی زندگی میں نئی ضرورتیں پیدا کرتا ہے۔ پھر ان
ضرورتوں کو پورا کرنے کی سوچ بلکہ خواہش ابھارتا ہے۔ نیز ان خواہشوں کو بر لانے کے
لئے نئے اور آسان طریقے بھی بتاتا ہے۔ ۔۔۔تو اندازہ فرمائیے کے کاروبار کے لئے
انسان کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔
ہر
انسان اپنی ضرورتوں کے لئے دوسرے انسان کے پاس جانےکو مجبور ہے تو اس طرح ہر انسان
دوسرے انسان کی نظروں میں ایک شکار ہے جس سے اس نے زیادہ سے زیادہ منافع بٹورناہے۔
جب ہر فرد دوسرے فرد کو اپنے شکار کے طور پر دیکھے گا تو اس معاشرے میں حرص و ہوس
اور لالچ و خود غرضی کی سطح کتنی بلند ہو جائے گی ،معاشرتی لوٹ کھسوٹ کا عالم کیا
ہو گااور انسانی مزاج کس درجہ خود غرض بن جائے گا۔ یہ تصویر ایک ایسے معاشرے کی ہے
جو خانہ جنگی کے دھانے پہ کھڑا ہے اور کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتا ہے۔
ان
غیرفطری سوچوں اور خواہشوں سے نبرد آزما ہونے کا واحد حل معاشرے کو مصطفائی شعور
اور مصطفائی اصولوں پر استوار کرنا ہے۔ مصطفائی معاشرے کا سب سے پہلا اصول یہ ہے
"مسلمان
وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں"
دوسرا
اصول یہ ہے کہ:
"کوئی
شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسندکرے جو
اپنے لئے کرتا ہے۔"
اور
تیسرا صول یہ ہے کہ:
"انسانوں
میں بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لئے زیادہ مفید ہو"